قصہ اہل جنوں – بیت المقدس کی دہلیز پر

قصہ اہل جنوں

“بیت المقدس کی دہلیز پر “

اس شخص کی کہانی جسے میرے اللّہ نے اپنے قبلہ اول کو آزاد کروانے کی لئے پیدا کیا تھا ۔

یہ مضمون میری آنے والی کتاب “اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے

آج ہمیں حطین جانا تھا ۔ دل میں ایک عجیب طرح کی بےچینی عجیب سی خوشی تھی ۔ حطین کا نام کئی دہائیوں سے ذہن کے نہاں خانوں میں نقش تھا ۔ وہ سرزمین جس نے تاریخ کا نیا باب قلم بند کیا تھا ۔ مجھے بتایا گیا تھا ۱۱۸۷ء کو ہونے والی اس فیصلہ کن جنگ کی کوئی نشانی اب وہاں باقی نہیں جو صلاح الدین ایوبی اور صلیبیوں کے درمیان لڑی گئی تھی لیکن میں پھر بھی وہاں جانا چاہتا تھا ان فضاؤں میں سانس لینا چاہتا تھا اس دو چوٹیوں والی پہاڑی کے منظر کو اپنی آنکھوں میں ہمیشہ کے لئے مقید کرنا چاہتا تھا جو ان لمحوں کی گواہ تھیں جب اٹھاسی سال کے بعد قبلہ اول کی قسمت کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوا تھا ۔ دائیں چوٹی پر سلطنت یروشلم کے حکمران گی لوزینیان نے اس جنگ کے دوران اپنا خیمہ نصب کیا تھا جس کے باہر صلیب اعظم گڑی تھی ۔ میں اس چوٹی پر کھڑے ہوکر نیچے پھیلے حطین کے میدان پر نگاہ دوڑانا چاہتاتھا ۔

میں درحقیقت اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھ رہا تھا کہ آج مجھے اپنے بچپن کے اس ہیرو کے نقوش پاء پر چلنے کی توفیق مل رہی ہے جسے میرے اللہ نے اپنے قبلہ اول کی آزادی کے لئے پیدا کیا تھا ۔

مسجد اقصیٰ میں فجر اور اشراق کی نماز پڑھنے کے بعد ہم پَو پھٹنے پر ہوٹل واپس لوٹ آئے ۔ حمزہ اوربلال واپس آتے ہی بستر پر ڈھیر ہو گئے اور جلد ہی کمرہ ان کی گہری سانسوں سے گونجنے لگالیکن میں جاگتا رہا میرے دل کی بے کلی مجھے بستر پر لیٹنے سے روکتی رہی میں کھڑکی کے پردے ہٹا کر قبة الصخرا کو دیکھنے لگا ۔ جس کا سنہری گنبد جبل زیتون کے عقب سے طلوع ہوتے ہوئے سورج کی نرم روشنی میں چمک رہا تھا ۔

کبوتروں کی کئی ڈاریں اس کے گرد طواف کر رہی تھیں ۔ بے شمار کبوتر نیچے بیٹھے دانہ چگنے میں مصروف تھے ۔ گنبد سے امڈتی سنہری اور روپہلی شعاؤں نے جیسے مجھ پر جادو سا کر دیا

مجھے لگا جیسے اس پر آسمان سے نور کی بارش ہو رہی ہو ۔ قبةالصخرہ کے چبوترے پر زائرین کی کئی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بیٹھی نظر آرہی تھیں ۔ چبوترے کے نیچے لگے سینکڑوں سال پرانے زیتون کے درخت باد صبا کے سنگ دھیرے دھیرے مستی میں جھوم رہے تھے ۔ میں اس نظارے میں کھو سا گیا اور مسحور ہوکر بے اختیار اس کی طرف تکتا رہا ۔ پتہ نہیں اس سنہرے گنبد میں ایسی کیا کشش تھی کہ میں جب بھی اس کی طرف دیکھتا تھا تو میرے لئے اپنی نگاہ ہٹانا مشکل ہو جاتا تھا ۔ میرے کانوں میں پچھلے چالیس سال سے مسجد اقصٰی کی خدمت کرنے والے خوش نصیب ابو فواد کی آواز گونجنے لگی جو اس نے قبة الصخرہ کے احاطے میں جھاڑو پھیرتے ہوئے سر اٹھا کر مجھ سے کہی تھی ۔ کہ

” ڈاکٹر کیا تم جانتے ہو کہ جنت تک جانے کا سب سے چھوٹا راستہ کون سا ہے ۔”

میں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ گنبد کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا ۔

” یہ گنبد! اور یہیں سے میرے آقا ﷺ آسمان کی طرف گئے تھے“

اور اس کے بعد میں جب بھی اس گنبد کی طرف دیکھتا تھا تو مجھے ابو فواد کی یاد آنے لگتی تھی اب مجھے بھی اس کی بات پر یقین ہو چلا تھا کہ وہ سچ کہتا ہے آخر اس جگہ میں کوئی تو ایسی خاص بات ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو ہزاروں میل دور سے یہاں لایا گیا تھا ورنہ معراج تو مکہ سے بھی ہو سکتی تھی ۔ آخر کچھ تو ہے کہ قرآن مجید میں جب بھی اس جگہ کا ذکر آتا ہے تو اسے خیر وبرکت والی جگہ کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ دنیا میں کسی اور خطہ زمین کے نصیب میں یہ سعادت نہیں ۔

یہ سنہری شعاعیں گنبد سے نکل کر سیدھی آسمان کی وسعتوں میں گم ہو رہی تھیں مجھے لگا جیسے ان کے درمیان کوئی سیڑھی سی موجود ہے جو سیدھی آسمان کی طرف چلی گئی ہے ۔ اور چرخ نیلی فام اور اس گنبد کے درمیان کوئی براہ راست رستہ سا بن گیا ہے ۔ میرا بڑادل چاہا کہ میں بھی اپنے نبی ﷺ کی اتباع میں ان سیڑھیوں پر چڑھتا اوپر چلا جاؤں لیکن میرے ایسے نصیب کہاں تھے میں اپنی انہی بے ہنگم اور بے سُری سوچوں میں مگن رہا ۔

پتہ نہیں کتنی دیر گزر گئی اچانک حمزہ نے نیند میں کچھ بولنا شروع کیا تو میں چونک گیا بڑے بے ربط سے الفاظ تھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔

میں کھڑکی سے ہٹ کر رائٹنگ ٹیبل کے ساتھ بچھی کرسی پر آ بیٹھا اور اپنا بک ریڈر کھول کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے بارے میں لکھی ابن شداد کی یاد داشتیں پڑھنے لگا ۔

بہاؤالدین بن شداد بارہویں صدی کا مشہور عالم اور مستند عرب تاریخ دان ہے جس کی سلطان صلاح الدین ایوبی پر لکھی کتاب

” النوادر السلطانیہ والمحاصین الیوسفیہ “ سلطان ایوبی کی زندگی پر ایک بڑی مستند اور معتبر دستاویز سمجھی جاتی ہے اس کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈونلڈ سڈنی رچرڈز نے

” The rare and excellent history of Saladin “کے نام سے کیا ہے یہ کتاب ایمیزون پر دستیاب ہے ۔

ابن شداد نے زندگی کا بڑا حصہ سلطان صلاح الدین کے ساتھ گزارا وہ اس کی کابینہ میں وزیر بھی رہا ۔ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے سفر میں شریک رہا ۔ اس کی یہ کتاب اس کے ذاتی مشاہدات اور تجربات پر مبنی ایک بڑی حقیقیت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ ڈائری پر
مشتمل ہے جو وہ سلطان کی ہمراہی میں روز لکھا کرتا تھا ۔

مجھے اس کتاب سے پہلی بار آگاہی اپنے سکول کے زمانے میں ہوئی جب میں نے التمش

Recent Blog Items