علامہ اقبال اور فلسطین

علامہ اقبال اور فلسطین

علامہ اقبال نے 1931 میں فلسطین کے مفتی علامہ امین الحسینی کی دعوت پر فلسطین کا دورہ کیا تھا۔
علامہ اقبال ان دنوں لندن میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں شریک تھے تاکہ ہندوستانی سیاست دانوں کے مطالبے کے مطابق وسیع تر خود مختاری کے لیے اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اُنہی دنوں جب متمر العالم الاسلامی یا ورلڈ مسلم کانگریس نے صیہونی خطرے پر بحث کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی تو اقبال اس کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن کانفرنس چھوڑ کر یروشلم گئے۔ اور یروشلم کی اسلامک کانفرنس میں شرکت کی ۔ یہ دورہ ان کی زندگی کا ایک اہم واقعہ تھا جس نے ان کی شاعری سوچ اور زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے۔

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ ؒکی زندگی میں 1931بہت اہم سال تھا۔
اس سال 14اگست کے دن انہوں نے لاہور کے ایک جلسے میں کشمیر کی تحریک آزادی کا اعلان کیا پھر دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن گئے اور پھر وہیں سے اسی سال 6دسمبر کو علامہ اقبالؒ مؤتمر اسلامی کی طرف سے فلسطین پر کانفرنس میں شرکت کیلئے یروشلم پہنچے۔
علامہ اقبالؒ ؒبیت المقدس کے قریب واقع ہوٹل فندق مرقص میں ٹھہرے۔ 6دسمبر 1931کی شام بیت المقدس سے متصل روفتہ المصارف میں مؤتمر اسلامی کا تعارفی اجلاس ہوا جس کے بعد علامہ اقبالؒ ؒمسجد اقصیٰ میں آئے۔
پہلے انہوں نے مولانا محمد علی جوہرؒکی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ پھر مسجد اقصیٰ میں نماز مغرب ادا کی۔ یہیں پر تلاوت اور نعت خوانی کی ایک محفل میں شرکت کی۔ نماز عشا بھی یہیں ادا کی اور آخر میں علامہ اقبال ؒنے سب شرکا سمیت ہاتھ اٹھا کر عہد کیا کہ وہ مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں بھی قربان کر دیں گے۔
علامہ اقبالؒ ؒسات دن تک مؤتمر کے اجلاسوں میں شریک رہے اور روزانہ مسجد اقصیٰ میں آکر نماز ادا کرتے تھے۔ یہاں کئی مرتبہ انہوں نے فاتح اندلس طارق بن زیاد کے متعلق اپنے فارسی اشعار سنائے جن کا عربی ترجمہ ایک عراقی عالمِ دین کیا کرتے۔ علامہ اقبالؒ ؒقاہرہ کے راستے سے واپس ہندوستان آ گئے لیکن فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے ساتھ ان کا رشتہ تادمِ مرگ قائم رہا۔

پہلی گول میز کانفرنس کے دوران 4 جنوری 1931 ء کو مولانا محمد علی جوہر کا انتقال ہوا اور ان کی خواہش پر انہیں 23 جنوری کو مسجد اقصیٰ میں دفن کیا گیا جس کی روداد میری کتاب “اہل وفا کی بستی “ میں بڑی تفصیل سے درج ہے جو فلسطین اور اسرائیل کاسفر نامہ ہے ۔

علامہ اقبال کا فلسطین اور بالخصوص مسجد اقصٰی سے گہرا روحانی و مذہبی تعلق تھا۔ ان کی شاعری میں بیت المقدس کی مرکزیت واضح ہے۔ وہ مسجد اقصٰی کو امت مسلمہ کے اتحاد کی ایک اہم علامت سمجھتے تھے۔
اس وقت فلسطین میں یہودی آبادکاری تیز ہو رہی تھی اور مقامی مسلمانوں میں بے چینی پھیل رہی تھی۔ اقبال اس صورتحال پر گہری نظر رکھتے تھے اور امت مسلمہ کے لیے اسے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھتے تھے۔

اقبال کا بیشتر وقت بیت المقدس میں ہی گزرا۔ انہوں نے مسجد اقصٰی میں نمازیں ادا کیں اور مقامات مقدسہ کا دورہ کیا۔
انہوں نے یروشلم کے علاوہ ساحلی شہر یافا اور غزہ پٹی کا بھی دورہ کیا۔
اس دوران انہوں نے فلسطینی عرب رہنماؤں، دانشوروں اور مذہبی شخصیات کے ساتھ ملاقاتیں کیں ۔ جن میں حاجی امین الحسینی (مفتی اعظم فلسطین) اور شریف حسین بن علی (مکہ کے سابق شریف) بھی شامل تھے، وہ اس ملاقات کے لئے خاص طور پر عمان تشریف لے گئے جہاں شریف مکہ اپنے بیٹے اردن کے والی شاہ عبداللہ بن حسین کے ساتھ قیام پزیر تھے۔ان ملاقاتوں کا محور فلسطین میں پیش آنے والی سیاسی تبدیلیاں اور صیہونی خطرہ تھا ۔
ڈاکٹر رفیع اللہ شہاب نے اپنی کتاب “علامہ اقبال کے آخری دو سال” میں اس ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مطابق اس ملاقات میں خلافت کے خاتمے، مسلم دنیا کی زبوں حالی، اور بڑھتے ہوئے صیہونی خطرے جیسے اہم موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔ دونوں ہی شخصیات مسلمانوں کے اتحاد اور نشاۃ ثانیہ کی خواہش مند تھیں۔۔

اس دورے نے اقبال کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا۔ انہوں نے مسجد اقصٰی کو اپنی شاعری میں مرکزی استعارے کے طور پر استعمال کیا، جو امت مسلمہ کی بیداری، اتحاد اور آزادی کی علامت بن گیا۔ “مسجد قرطبہ” جیسی نظم، اگرچہ اسپین کے بارے میں ہے، اسی دورے کے بعد کے دور میں لکھی گئی اور اس میں مسلمانوں کے عروج و زوال کے موضوعات کو بہت گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔
اس دورے کے بعد اقبال کا فلسطین کے بارے میں موقف اور بھی واضح ہو گیا۔ انہوں نے خطبات اور تحریروں میں صیہونی تحریک کی مخالفت کی اور مسلمانوں کو اس خطرے سے آگاہ کیا۔
اقبال جیسے عظیم شاعر اور مفکر کا فلسطین کا دورہ بین الاقوامی سطح پر، خاص طور پر مسلم دنیا میں، فلسطین کے مسئلے کو مزید نمایاں کرنے کا باعث بنا۔

یہ دورہ ان کے فکری سفر کا ایک اہم موڑ تھا ، ایک فکری، روحانی اور سیاسی سفارت تھی۔ یہ دورہ ان کے فلسطین اور امت مسلمہ کے مسائل کے بارے میں گہرے مشاہدے اور فکر کا حصہ تھا، جس کے اثرات ان کی بعد کی شاعری، خاص طور پر “بال جبریل” (1935) اور “ضرب کلیم” (1936) میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔
جس نے بعد میں پوری مسلم امہ کو متاثر کیا۔

علامہ اقبال کے مجموعہ کلام ’ضرب کلیم‘ میں ایک نظم ’شام و فلسطین‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس نظم میں اقبال فرماتے ہیں:

رندان فرانسيس کا ميخانہ سلامت
پر ہے مے گلرنگ سے ہر شيشہ حلب کا

ہے خاک فلسطيں پہ يہودي کا اگر حق
ہسپانيہ پر حق نہيں کيوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکيت انگليس کا کچھ اور
قصہ نہيں نارنج کا يا شہد و رطب کا

پہلی جنگ عظیم اور لیگ آف نیشنز کے قیام کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس سے اقبال بہت مایوس تھے۔ اس پر انہوں نے چار مصرعے کہے جو بہت سخت تھے۔ ان میں لیگ آف نیشنز کو ’کفن دُزد چند‘ یا قبروں سے کفن چرانے والے چند لوگ کہا۔ یہ

Recent Blog Items