پروفیسر فوزیہ سلطانہ صاحبہ بھمبر پوسٹ گریجویٹ کالج میں درس وتدریس کےشعبہ سے وابستہ ہیں دو کتابوں کی مصنفہ ہیں انہوں نے زبان یار من ترکی کی تقریظ لکھی ہے جس کے لئے ان بہت شکر گزار ہوں اور قرضدار ہوں
سفر نامہ : زبان یار من ترکی
پبلشر : جہلم بک کارنر۔
تبصرہ : پروفیسر فوزیہ سلطانہ
مصنف : ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ
تعارف :ڈاکٹر صاحب سرگودھا میں پیدا ہوئے ۔
ایم بی بی ایس (MBBS) پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے کیا۔
کالج کی سٹوڈنس یونین کے جنرل سیکریٹری رہے۔
1. یونیورسٹی آف زیمبیا لوساکا سے سرجری میں ماسٹرز (MMed) کیا اور بعد ازاں رائل کالج آف سرجنز ایڈنبرا سے ایف آرسی ایس (FRCS) کیا۔ گزشتہ کئی سال سے آسٹریلیا کے شہر برسبین میں مقیم ہیں۔ پائلٹ بننے کا شوق تھا۔ جس کی تکمیل کے لیے آسٹریلیا میں ہوا بازی کی باقاعدہ تربیت لی۔ اور پی پی ایل (PPL) پرائیویٹ پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔ اس کے علاوہ مونیش یونیورسٹی میلبرن سے Aviation Medicine میں ڈپلوما بھی حاصل کیا۔
مصنف ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کے سفر نامے کا اسلوب سادہ، واقعاتی، اور معلومات سے بھرپور ہے۔سیاح کے فطری تجسس کی وجہ سفر کے تانے بانے خود بخود بنتے گئے ،اور مصنف کی شگفتگی، بے ساختگی، روانی اور داستانوی طرز تحریر نے قاری کی کیفیات میں جوش کا ذائقہ متعارف کروایا۔
مصنف نے ترکی کے منظر یوں پیش کیا کہ قاری تحریر و تصور کی دلکشی میں مہبوت ہو کر رہ جاتا ہے۔
مصنف اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں اقتدار کی جنگ میں جو ماں اپنے بیٹے کو سلطان بنانے کامیاب ہو جاتی ہے، وہ باقی تمام امیدواروں کو ان کی ماؤں سمیت قتل کروا دیتی ہے۔
سلطان کا حرم بلند نظر اور مہم جو خواتین سے بھرا ہوا تھا۔
استنبول میں نیلی مسجد، ھائیہ صوفیہ،آبنائے باسفورس، توپ کاپی میوزیم،کے ذکر کے ساتھ استنبول کے شمال مغرب میں حضرت ایوب انصاری دفن ہیں۔۔۔۔۔اس قبرستان کی ہر دوسری قبر کے کتبے پر لکھا ہے
اے اللہ حضرت ایوب انصاری کی رفاقت کے صدقے اس کی مغفرت فرما۔
ایک جگہ مصنف نے ذکر کیا کہ طیب اردگان کی پارٹی مسلسل چوتھا الیکشن جیت چکی تھی، اسلام پسند الیکشن میں جیت کے ساتھ قسطنطنیہ کی فتح کا 570پانچ سو سترواں جشن بھی منا رہے تھے۔ طیب اردگان ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے عدنان میندریس کی قبر پر حاضر ہو ئے ،اور اخبار نویسوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
جمہوریت کی شمع جو میندریس اور اس کے ساتھیوں نے روشن کی تھی۔وہ کئی ہاتھوں سے ہوتی ہوئی آج ہماری پارٹی کے پاس آگئی ہے۔اس دن میں سات 7 سال کا تھا جب عدنان کو پھانسی دی گئی، وہ شام کبھی نہیں بھولا کیونکہ اس دن میں نے اپنے باپ کو پہلی مرتبہ روتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں عدنان میندریس کی جلائی شمع کا تسلسل ہوں۔جس نے ترکی میں جمہوریت کو زندہ رکھا۔
مولانا جلال الدین رومی کا بہت خوبصورتی سے ذکر کیا
چہ گویم،چہ دانم، کہ این داستان
فزوں است از حد وامکان و ما
میں کیا کہوں؟ میں کیا جانوں؟ کہ یہ داستان میری حد و امکان سے زیادہ ہے۔
پروفیسر فرینکلن ڈی لیوس نے 2000 میں اپنی مشہور کتاب لکھی جس کا نام ہے ۔
Rumi past and present east and west
The life teaching and poetry of Jalal-din Rumi
اس کتاب نے رومی کو مغرب میں زیادہ پڑھے جانے والا شاعر بنا دیا۔
اقبال کی رومی سے عقیدت اپنی جگہ، لیکن دونوں کے کلام میں ہم آہنگی اور مماثلت نے ان کے رشتے میں زمان و مکان کی دوریاں ان کی قبروں کے فاصلوں کو ختم کر دیا ہے اب وہ شہر خموشاں میں ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں۔
“شوق آوارگی ” سفر نامہ میں عطاء الحق قاسمی نے مزاح نگاری کی ہے بلکہ قلم کی شوخی بے قرار ہو گی ۔
“نکلے تری تلاش میں ” سفر نامہ میں مستنصر حسین تارڑ نے خود کو ہیرو بنا کر پیش کیا اور افسانوی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔
جبکہ کہ مصنف ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کا سفر نامہ ” زبان یار من ترکی ” ایک داستانوی طرز، جو اپنے تاثرات میں حالات اور کوائف جو فنی طور پر سفر نامے کا بیانیہ ہے۔


