برصہ عثمانی ترکوں کا تیسرا دارلخلافہ

برصہ عثمانی ترکوں کا تیسرا دارلخلافہ

زیر نظر مضمون میری کتاب ”زبان یار من ترکی “ میں شامل ہے

کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجا ست

قصہ اس شہر دلپذیر کی سیر کا جس کی فتح دراصل سلطنت عثمانیہ کے عروج کی ابتداء تھی

ایفسس میں دو دن گزارنے کے بعد کوچ کا ارادہ کیا

ایفسس کا موجودہ نام سلجوق ہے

ہماری اگلی منزل برصہ تھی

جسے بعض اردو اور فارسی تاریخ دان بروصہ بھی لکھتے ہیں صبح سویرے ہوٹل سے چیک آؤٹ ہونے کے بعد ہم نے برصہ کے لئے رخصت سفر باندھا

سلجوق سے برصہ تقریباً چار سو کلومیٹر دور ہے

ابن بطوطہ نے اپنی کتاب” رحلہ “ میں سلجوق کا ذکر کیا ہے وہ برصہ سے سلجوق اور اور وہاں سے ازمیر گیا تھا جو سلجوق سے چالیس کلومیٹر دور ہے ہمیں ازمیر نہ جانے کا دکھ تو ضرور تھا لیکن برصہ جانے کی خوشی اس دکھ پر غالب آ رہی تھی پروگرام یہی بنا تھا کہ چونکہ وقت ہاتھوں سے نکلا جا رہاہے دن کم رہ گئے ہیں اس لئے ازمیر یاترا پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھی جائے اور زیادہ سے زیادہ وقت برصہ میں گذارا جائے

لہذاٰ ہم اس سمت چل دئیے ابن بطوطہ جس سمت سے آیا تھا جوں جوں برصہ قریب آرہا تھا دل میں بے چینی سی بڑھتی جارہی تھی یوں لگتا تھا جیسے میں اپنے گاؤں اپنے شہر جارہا ہوں

برصہ کا نام اس دور سے ذہن کے نہاں خانوں پر نقش تھا

جب سے عثمانیوں کی تاریخ پڑھنی شروع کی تھی

برصہ دیکھنے کا اتنا اشتیاق تھا کہ دل چاہتا تھا کہ کار کو پر لگ جائیں اور یہ فوراً بر صہ پہنچ جائے لیکن

آہ بسا آرزو کہ خاک شدہ

اور کار سڑک پر ہی دوڑتی رہی

حالانکہ موٹروے انتہائی شاندار تھی لیکن اس کے باوجود گرینڈ برصہ ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے پانچ گھنٹے لگ گئے جہاں علی ہمارا انتظار کر رہا تھا علی پہلے آسٹریلیا میں رہتا تھا اب برصہ میں رہائش پذیرہے اس نے میزبانی کا فریضہ خوب نبھایا

تھوڑا آرام کرنے کے بعد اسی دن ہم پہاڑ کی چوٹی پر قائم برصہ کا قلعہ دیکھنے پہنچ گئے جس کی فصیل کے باہر عثمان غازی اور اس کے بیٹے اورہان غازی کے مقبرے ہیں

وہیں شام ہوگئی عشائیے کے لئے علی ہمیں اندرون شہر کے ایک پرانے ریسٹورنٹ میں لے گیا جہاں کھانا کھا کر ہمیں احساس ہوا کہ مقامی فرد کی راہنمائی کے بغیر نہ تو آپ کسی شہر کی سیر سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور نہ ہی وہاں کے روائیی کھانوں سے دوسرے دن چند اور تاریخی مقامات کی سیر کرنے کے بعد میرے راستے اپنی فیملی سے جدا ہوگئے

حمزہ اردن واپس جا چکا تھا جہاں وہ عربی سیکھ رہا تھا برصہ آنے کے بعد بیگم ، زینیا اور بلال زیادہ تر بازاروں کی سیر میں مصروف رہے

‎ میں شہر کی گلیاں چھاننے میں مصروف ہو گیا علی نے کئی دفعہ میرے ساتھ آنے کی کوشش کی

لیکن علی کو میں نے خود ہی منع کر دیا کہ وہ میری فکر نہ کرے

وہ برصہ میں ایک بیکری چلاتا ہے اور خاصا مصروف تھا لیکن روز شام کو اپنا کام کاج ختم کر کے وہ اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ ہوٹل آجاتا اور رات گئے تک ہمارے ساتھ رہتا

میں ‎ روز صبح سویرے ناشتہ کرتے ہی ہوٹل سے نکل جاتا اکیلا سارا دن برصہ میں گھومتا پھرتا رہتا کبھی پیدل او رکبھی ٹرام پر

جہاں ٹرام نہیں جاتی تھی وہاں ٹیکسی لے کر پہنچ جاتا زبان کا مسئلہ ہونے کے باوجود مجھے یہاں اجنبیت کا احساس نہ ہوتا

لگتا تھاجیسے یہ میرا اپنا پرانا آبائی شہر ہے اور میں عرصے کے بعد یہاں واپس آیا ہوں ہر گلی ہر کوچہ جانا پہچانا لگتا ہر سڑک شناسا محسوس ہوتی لوگ اپنے اپنے سے لگتے

برصہ شہر کی مرکزی لائبریری میں بھی بہت وقت گزارا جب ‎ دھوپ کی تمازش تیز ہونے لگتی اور سورج سوا نیزے پر آجاتا چل چل کر تھک جاتا تو لائبریری چلا آتا

بوڑھا مہتمم میرا دوست بن گیا تھا – وہ مجھے کاردش کہہ کر مخاطب کرتا

وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول لیتا تھا اور صدیوں پرانے ملفوظات اور دستاویزات مجھے دکھا کر بہت خوش ہوتا ۔

وہ میرے لئے ان کا ترجمہ کرتا اور ہر پندرہ منٹ کے بعد ترکی قہوہ لے کر آجاتا۔

چینی اور دودھ کے بغیر پیا جانے والا یہ قہوہ بھی خوب تھا شروع میں کڑوا لگا لیکن پھر مجھے جیسے اس کی عادت سی ہوگئی دن میں درجنوں کپ پی جاتا اور یہ عادت ترکی سے واپس آنے کے بعد بھی کافی عرصے تک قائم رہی

جب تک ترکی سے لائے قہوے کے سارے ڈبے ختم نہ ہوگئے۔

دریائے نیلو فر کے کنارے بنے خوبصورت پارکوں سے بھی راہ ورسم خوب بڑھا لی تھی، گھنٹوں لب دریا بچھےبینچوں پر بیٹھا بہتے پانی کی روانی اور تند و تیز لہروں کی طرف دیکھتا رہتا

سر سبز مخملیں گھاس پر ہاتوں کا سرہانہ بنا آنکھیں موند کر لیٹ جاتا

مجھے لگتا جیسے یہ سرکش موجیں مجھے کہانیاں سنا رہی ہوں – لوری دے رہی ہوں – گئے وقتوں کی بھولی بسری کہانیاں عثمان غازی اور اس کے جانثاروں کی داستانیں

اور ہان خان غازی اور نیلوفر کی کہانیاں

عثمان غازی اور بیلا خاتون کی کہانیاں

مجھے ان کے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دیتی اللّٰہ اکبر کے نعرے میرے کانوں میں گونجنے لگتے

برصہ کے گلی کوچوں میں اپنے ساتھ گزارے یہ انمول لمحے مجھے بہت عزیز ہیں اور آج بھی دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہے

برصہ تین بار اجڑا تین بار برباد ہوا اور پھر تین بار آباد ہوا

سلطان بایزید یلدرم 1402ء میں انگورہ کی جنگ ہار گیا تیمور نے اسے گرفتار کرلیا اور اپنے ساتھ سمرقند لے گیا تیمور لنگ کے پوتے محمد سلطان مرزا نے برصہ پر قبضہ کرنے کے بعد شہر کو آگ لگا دی اور تمام شہر مسمار کر دیا

ادریس بتلیسی نے اپنی کتاب

“ ہشت بہشت “ میں لکھا ہے کہ “ جب تیموریوں نے برصہ چھوڑا تو شہر کی کوئی عمارت سلامت نہیں تھی

جلی ہوئی عمارتوں سے اٹھتے دھویں گدِھوں اور

Recent Blog Items