انارکلی اور فرانسیسی جنرل

شاید لاہوری بھی نہیں جانتے کہ انارکلی میں ایک فرانسیسی جرنیل کا مقبرہ ہے جو کبھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کا سب سے چہیتااور قابل جرنیل تھا ۔ یہ مقبرہ ایڈورڈ روڈ پر منشی چمبرز کے عقب میں واقع ہے ۔حال ہی میں فرنچ گورنمنٹ نے اس کے مقبرے کی تزئین آرائش کی ہے ۔

اور یہ بات بھی بہت سے لوگوں کے لئے انکشاف ہو گی کہ لوئر مال پر سول سکیریٹریٹ کی عمارت انگریزوں کی تعمیر کردہ نہیں بلکہ اس جرنیل نے اس عمارت کو اپنی رہائش گاہ کے طور پر تعمیر کروایا تھا اور یہ کبھی اس کا گھر تھی ۔ اس فرانسیسی جرنیل نے پشاور اور موجودہ کے پی کے کے علاقوں کو سکھ سلطنت میں شامل کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا تھا

جنرل جین الارڈJean-François Allard۱۷۸۵ ء کو فرانس کے شہر سینٹ ٹوپاز Saint Topaz میں پیدا ہوا۔ ۱۸۰۴ء میں اس نے نپولین کی فوج میں بطور لفٹیننٹ شمولیت اختیار کی اور جلد ہی اپنی بہادری اور حاضر دماغی کے باعث کیپٹن بن گیا ۔ انگریزوں کے خلاف جنگ میں اس کی غیر معمولی شجاعت کی بنا پر نپولین بونا پارٹ نے اس کو فرانس کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز Légion d’Honneur (French for Legion of Honour) سے نوازا۔

۱۸۱۵ء میں واٹرلو کی جنگ میں نپولین کو شکست ہوئی اور اس کے نامی گرامی کمانڈروں کی بھی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی تو الارڈ اپنی جان بچاکر بھاگا اور ایران چلا آیا ۔ جہاں اس نے ایران کے قاچار بادشاہ عباس مرزاکی ملازمت اختیار کر لی ۔ اور ایرانی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔ جہاں اس نے فارسی زبان سیکھی اور اس حد تک کمال حاصل کر لیا کہ وہ فارسی میں شاعری بھی کرنے لگا۔ لیکن جب ایران میں انگریزوں کا اثر ورسوخ بڑھ گیا تو ۱۸۲۲ء میں الارڈ اپنے ایک اور اطالوی ہمنوا وینچورا Jean Baptiste Ventura کے ساتھ بھیس بدل کر ایران سے فرار ہوا اور کابل آگیا اور پھر خیبر پاس کے ذریعے لاہور پہنچ گیا۔

جہاں اس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار تک رسائی حاصل کی اور اسے سکھ فوج کو جدید بنیادوں پر ٹریننگ دینے اور انگریزوں کے ٹکر کی فوج بنانے کی پیش کش کی ۔ مہاراجہ نے اس پر فوراً اعتبار نہ کیا اور پہلے اس کو حراست میں لے کر اس کے بارے میں تحقیقات کروائیں جس میں تقریباً تین ماہ لگے ۔ اس کے ماضی کی تصدیق کروانے کے بعد اسےتیس ہزار روپے سالانہ پر ملازمت دے کر فوج کا ایک دستہ ٹریننگ کے لئے اس کے حوالے کر دیا۔

الارڈ نے انتہائی جاں فشانی اور محنت سے دو سال میں اس دستے کو مہاراجہ کی فوج کے بہترین دستے میں بدل دیا۔ اور وہ دستہ “فوج خاص” کہلانے لگا ۔ اس کی خدمات سے خوش ہو کر مہاراجہ نے اسے اور دستوں کی ٹریننگ سونپ دی

جلد ہی الارڈ سکھوں کی فوج کا سب سے قابل کمانڈر بن گیا ۔ مہاراجہ نے اسے جرنیل کا عہدہ عطا کر دیا ۔ اس کا تیار کردہ گھڑ سوار دستہ “فوج خاص “ بلا شبہ ایشیاء کا بہترین فوجی دستہ (Calvary)تھا ۔ جس کے گھوڑے بھی اپنے سواروں کی طرح بے مثال تھے ۔اس نے پہلی بار اس دستے کو کاربین (پستول نما بندوق ) سے لیس کیا ۔

اس گھڑ سوار دستے نے ۱۸۲۷ء میں پشاور کے گردونواح ، ڈیرہ جات اور گلگت ناران کے علاقوں کو فتح کیا اور۱۸۳۱ء میں سید احمد شہید کی تحریک کو کچلنے اور انہیں شہید کرنے میں اہم کردار اداکیا ۔

اس کی ان خدمات کے صلے میں مہاراجہ نے اسے سکھ ریاست کا سب سے بڑا فوجی اعزاز” کوکب اقبال پنجاب “ عطا کیا ۔ اب اسے مہاراجہ کے دربار میں بہت خاص اور اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ اور وہ اس کی آنکھوں کا تارا بن گیا ۔ وہ صرف مہاراجہ کو جواب دہ تھا ۔ مہاراجہ نے اسے کئی جاگیروں سے نوازا اور اس کی سالانہ تنخواہ بھی دگنی کر دی گئی ۔ اسی دوران اسے مہاراجہ کی بھانجی شہزادی بانو پان دائی سے محبت ہوگئی ۔ مہاراجہ نے بخوشی اس کی شادی الارڈ سے کر دی ۔ جس سے اس کے سات بچے پیدا ہوئے ۔ ۱۸۲۷ء میں اس کی بڑی بیٹی میری شیولیٹ فوت ہوئی تو اس نے اسے اپنے محل کے پائیں باغ میں دفن کیا ۔ اور اس کی قبر پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروایا ۔ جسے “کڑی دا باغ یا کڑی دا مقبرہ “ کہا جاتا تھا ۔

۱۸۳۴ء میں اس نے مہاراجہ سے رخصت لی اور اپنی بیوی اور بچوں کو فرانس لے گیا اور اپنے آبائی شہر سینٹ ٹو پیز میں اپنی بیوی کے نام پر ایک شاندار محل تعمیر کروایا جو آج بھی موجود ہے اور اسے پان دائی پیلس کہا جاتا ہے ۔

۱۸۳۶ء میں وہ واپس پنجاب پہنچا اور مہاراجہ کے لئے اپنی خدمات دوبارہ سر انجام دینے لگا ۔

۱۸۳۷ء میں سکھ جنرل ہری سنگھ نروالہ کی موت کے بعد اس نے جمرود کی فتح میں اہم کردار اداکیا۔

۱۸۳۷ء میں مہاراجہ نے اسے سرحد میں ہونے والی بغاوت کو کچلنے کے لئے پشاور بھیجا ۔ جہاں دل کے عارضے کی وجہ سے اس کا انتقال ہوا ۔ اس نے ترپن سال کی عمر پائی ۔ اس کی آخری خواہش کے مطابق جب اس کی میت کو لاہور لایا گیا تو مہاراجہ کے حکم کے مطابق شاہی اعزاز کے ساتھ اسے اس کی دونوں بٹیوں کے ساتھ “کڑی کے باغ “ میں دفن کیا گیا ۔

کہا جاتا ہے کہ جب اس کی لاش لاہور پہنچی تو شاہدرہ سے لے کر انارکلی تک سڑک کے دونوں سمت سکھ فوجی کھڑے ہو کر اسے خراج عقیدت پیش کر رہے تھے ۔ مہاراجہ نے خود راوی کی کنارے اس کی لاش کا استقبال کیا اور پیدل اس کے ساتھ چلا ۔ چشم فلک نے لاہور میں ایسا جنازہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

از تحریر

ڈاکٹر تصوراسلم بھٹہ

Recent Blog Items