مقام نبی ہاشم
رسول اللہ ﷺ کے پردادا کا مقبرہ
“وہ قیمتی تاریخی ورثہ جو سولہ سو سال سے زمانے کی سرد وگرم کا مقابلہ کر رہاتھا ۔ حالیہ جنگ کی ہولناکیوں کی نذر ہو کر مٹنے کو ہے ۔ “
یہ تحریر میری آنے والی کتاب ” اہل وفا کی بستی ” میں شامل ہے جو فلسطین کا سفر نامہ ہے
میں جب اپنے فلسطین کے سفر کی منصوبہ بندی کرتے وقت ان مقامات اور زیارتوں کی فہرست بنا رہا تھا جہاں میں جانا چاہتا تھا تو غزہ اس فہرست میں سرفہرست تھا اور غزہ کے دو مقامات ایسے تھے جن کے بارے میں میری شدید خواہش تھی کہ اگر مجھے غزہ جانے کا موقعہ ملا تو ان دو مقامات پر ضرور جاؤں گا ان میں حماس کے بانی شیخ یسٰین کی قبر کی زیارت اور مقام نبی ہاشم شامل تھے ۔
لیکن جب فلسطین پہنچے تو حالات و واقعات سے اندازہ ہوا کہ غزہ جانا ناممکنات میں سے ہے تو اپنی خواہشوں پر خود ہی فاتحہ پڑھ کر اسے ارمانوں کے قبرستان میں دفنا دیا اور کسی سے ذکر تک نہ کیا ۔
آہ بسا آرزو کہ خاک شدہ
لیکن حطین جاتے ہوئے جب موٹر وے کے ایک ایکسٹ Exit پر پر “ہائی وے 60 ” کابورڈ دیکھا جو غزہ کو جاتا تھا تو
دل میں اک ہوک سی اٹھی ۔ دل بے چین سا ہو گیا ۔
اور میں نے بے قرار ہو کر ابو خالد سے پوچھا کہ
” کیا تم کبھی مقام نبی ہاشم گئے ہو ۔ “
وہ اپنی نگاہیں سامنے سڑک پر جمائے نہ جانے کس گہری سوچ میں گم تھا ۔ میرا یہ غیر متوقع سوال سن کر وہ چونکا اور میری طرف اچٹتی ہوئی نظر ڈالتے ہوئے بولا ۔
” ہاں کئی بار گیا ہوں اصل میں میری ایک پھوپھی غزہ شہر کی پرانی بندرگاہ کے اس قدیمی محلے الدرج квартал میں رہتی تھی ۔
جہاں حضور اکرم ﷺ کے پردادا حضرت ہاشم بن عبد مناف کا مزار ہے ۔ یہ مزار ایک مسجد کے احاطے میں واقع ہے جو میری پھوپھی کے گھر سے دو تین سو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ بچپن میں ہر سال کبھی اپنی ماں کے ساتھ اور کبھی باپ کے ساتھ میں جب بھی اپنی پھوپھی کے گھر جاتا تو ان کے مزار پر ضرور حاضری دیتا تھا کیونکہ اس مزار سے ملحقہ مسجد ہی اس علاقے کی جامع مسجد ہے ۔ اس لئے نماز اور جمعہ پڑھنے ہم اسی مسجد میں جایا کرتے تھے ۔ میرے باپ نے ہی مجھے پہلی بار حضرت ہاشم کی کہانی بھی سنائی تھی کہ کیسے وہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ گزرتے ہوئے غزہ میں بیمار ہوئے اور وفات پا گئے اور انہیں یہیں دفن کر دیا گیا ۔
میرا باپ کہا کرتا تھا کہ اہل غزہ بڑے خوش قسمت ہیں کہ انہیں
حضور اکرم ﷺ کے جد امجد کی میزبانی کا شرف حاصل ہے ۔ “
پھر وہ افسردہ سا ہو گیا اور غمگین لہجے میں کہنے لگا کہ
“لیکن اب تو عرصہ ہو گیا غزہ گئے ہوئے شائید بیس سال ۔ ہاں ! پچھلے بیس سال سے میں وہاں نہیں گیا۔ بہت دل کرتا ہے جانے کو ۔ اس مزار اور اس مسجد سے میرے بچپن کی بہت خوبصورت یادیں جڑیں ہیں میرے باپ کی یادیں میری پھوپھی کی یادیں جو مجھے بہت پیار کرتی تھی ۔دس سال پہلے اس کا انتقال ہو چکا ہے ۔ پھوپھاپہلے ہی فوت ہو گئے تھے ۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو میرا ہم عمر ہے وہ بھی چند سال ہوئے غزہ چھوڑ کر پہلے مصر گیا پھر وہاں سے امریکہ چلا گیا اب وہ وہاں ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے ۔”
اب تو وہاں جانے کا بہانہ ہی ختم ہو گیا ہے اور پھر میں اپنے اس ٹیکسی کے کاروبار کی وجہ سے خود ہی احتیاط کرتا ہوں کیونکہ غزہ مسافر لے کر جانے کا مطلب مصیبت کو دعوت دینا ہے۔ “
اس کی حضرت ہاشم کے مقبرے کے ساتھ جڑی اس کہانی نے مجھے بھی اداس کردیا ۔
اس کا دکھ میرے اس دکھ پر حاوی ہوگیا جو مجھے غزہ نہ جانے پر ہوا تھا ۔
میرے دل و دماغ کی سکرین پر حضرت ہاشم سے وابستہ ان واقعات کی ریل سی چل رہی تھی جو ان کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے ۔
حضرت ہاشم درحقیقت وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے قریش کو ایک منظم تجارتی قوت بنایا اور بنو ہاشم کی بنیاد رکھی ۔ جس میں آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو پیدا ہونا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔
ہاشم بن عبد مناف کے مقبرے کی تاریخ بہت پرانی اور دلچسپ ہے۔ یہ مقبرہ صدیوں سے غزہ شہر کی پہچان رہا ہے۔
ہاشم بن عبد مناف کا شمار “سادات قریش” (قریش کے سرداروں) میں ہوتا ہے۔وہ سارے قریش کے سرداروں کے سربراہ تھے ۔
انہوں نے اپنی عقل مندی اور دوراندیشی سے نہ صرف بنو ہاشم بلکہ پورے قریش کی معاشی حالت مستحکم کی اور عرب میں ان کی عزت و وقار میں اضافہ کیا۔
ان کا پورا نام عمرو بن عبد مناف
اور کنیت ابو نضلہ تھی ۔
ان کا نسب نامہ ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ ہے ۔ جو حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے ۔
ان کی والدہ کا نام عاتكة بنت مرة تھا ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل، واصطفى قريشًا من كنانة، واصطفى من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم”
· ترجمہ: “بے شک اللہ تعالیٰ نے اسماعیل کی اولاد میں سے کنانہ کو چنا، اور کنانہ میں سے قریش کو چنا، اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چنا، اور بنو ہاشم میں سے مجھے چنا۔” (صحیح مسلم)
وہ اپنے جود و کرم، سخاوت اور دوراندیشی میں اپنی مثال آپ تھے۔
ہاشم کا اصل نام تو عمرو تھا، لیکن انہیں “ہاشم” کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا مطلب ہے “روٹی توڑنے والا”۔ یہ نام انہیں اس لیے ملا کیونکہ انہوں نے قحط


